تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی | ابو بصیر سے روایت ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اپنی زوجہ جناب حمیدہ سلام اللہ علیھا اور بعض دوسرے افراد کے ہمراہ 128 ہجری میں حج کے لئے مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔ اعمال حج کی ادائگی کے بعد یہ مبارک قافلہ مدینہ منورہ کی جانب روانہ ہوا۔ بین الحرمین مکہ و مدینہ کے درمیان مقام ابوا جہاں صدف گوہر رسالت حضرت آمنہ سلام اللہ علیھا کا مزار ہے مختصر قیام کے لئے رکا۔ خیام نصب ہوئے اور لوگ اپنے اپنے خیمہ میں چلے گئے۔ ابو بصیر کہتے ہیں کہ ابھی ہم آرام اور غذا سے فارغ ہی ہوئےتھے کہ جناب حمیدہ سلام اللہ علیھا کا قاصد امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں آیا اور عرض کیا کہ مولا جلدی چلئیے آپ کی زوجہ کی طبیعت ناساز ہے۔ امام عالی مقام فورا روانہ ہوئے اور تھوڑی دیر بعد خوش و خرم واپس تشریف لائے۔ آپ کے احترام میں سب کھڑے ہو گئے اور احوال پرسی کی تو آپ نے فرمایا "حمیدہ (سلام اللہ علیھا) بخیر و عافیت ہیں۔ اللہ نے مجھے مبارک بیٹا عطا ہے۔ دنیا میں اس سے بہتر کوئی نہیں"
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ حمیدہ نے مجھے کچھ باتیں بتائیں وہ سمجھ رہی تھیں کہ مجھے نہیں معلوم ہے۔ حاضرین نے پوچھا: مولا واقعہ کیا ہے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: جیسے ہی میرے فرزند نے دنیا میں قدم رکھا اپنے دونوں ہاتھ زمین پر رکھے اور سر چہرہ آسمان کی جانب کر کے اللہ تبارک و تعالی کی تسبیح، تہلیل و تحمید فرمائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ پر درود بھیجا۔
امام علیہ السلام نے فرمایا میں نے حمیدہ سے کہا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ، امیرالمومنین علیہ السلام اور ائمہ معصومین علیھم السلام کی روش ہے کہ آپ بعد ولادت اپنے دونوں ہاتھ زمین اور چہرہ آسمان کی جانب کرکے اللہ جل شانہ کی تسبیح، تہلیل و تحمید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ پر درود پڑھتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ تبارک و تعالی کی وحدانیت کا اقرار و اعتراف اور اسکی گواہی دیتے ہیں۔
جیسے ہی یہ جملے انکی زبان سے جاری ہوتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالی اولین و آخرین کے تمام علوم انہیں عطا کر دیتا ہے۔ اور شب میں قدر میں ملک روح الامین انکی زیارت کو آتے ہیں۔
ابوبصیر کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے فرزند امام موسی کاظم علیہ السلام کی ولادت پر تین دن تک ولیمہ کیا اور سب نے غذا تناول کیا۔
(اصول کافى : ج 1، ص 316، ح 1، عیون المعجزات : ص 98، دلائل الا مامه طبرى : ص 303 ح 258.)
چونکہ آپ کی ولادت سفر حج کی واپسی پر مقام ابواء پر ہوئی لہذا بعض محققین نے بعض روایات اور قرائن کے مطابق تاریخ ولادت 20 ذی الحجہ 128 ہجری مانا ہے۔
گہوارے سے ہدایت
ائمہ اور امت میں بنیادی فرق ہے کہ امت جاہل پیدا ہوتی ہے۔ حصول علم میں وہ دوسروں کی محتاج ہے۔ اسی لئے روایات میں حکم ہے کہ مہد یعنی گہوارے سے لحد تک علم حاصل کریں۔ "اطلبوا العلم من المھد الی اللحد"
لیکن ائمہ معصومین علیھم السلام کی امامت کی اہم دلیل انکا علم ہے۔ انکا علم اللہ تبارک و تعالی کی عطا ہے اور وہ حصول علم میں غیر خدا کے محتاج نہیں۔ لہذا یہ ذوات مقدس ایام مھد یعنی گہوارے کے زمانے سے ہی امت کی ہدایت فرماتے ہیں۔ امیرالمومنین امام علی علیہ السلام نے بعد ولادت کتب آسمانی کی تلاوت فرمائی، کم سنی کے زمانے میں جب امام حسن مجتبی علیہ السلام کو ایک کافر و مشرک دشمن اسلام نے بارگاہ رسالت میں آپ کو واسطہ بنانے کے لئے آغوش میں لینا چاہا تو آپ نے اسکی ناک پکڑ کر منھ میں طمانچہ مارا اور فرمایا شہادتین کا اقرار کرو۔ یا اسی طرح امامین حسنین کریمین علیھما السلام نے کمسنی میں بہترین انداز سے ایک بزرگ کو وضو کا طریقہ تعلیم فرمایا۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے صحابی یعقوب سراج کا بیان ہے کہ ایک دن میں اپنے مولا و آقا امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ کے نزدیک گہوارہ میں آپ کے فرزند امام موسی کاظم علیہ السلام تھے۔ میں نے آپ کو سلام کیا آپ نے جواب دیا اور گہوارے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اپنے مولا و آقا کو سلام کرو۔ میں حسب حکم گہوارے سے نزدیک گیا اور امام موسی کاظم علیہ السلام کی خدمت میں سلام عرض کیا۔ آپ نے جواب سلام عطا فرمایا اور فرمایا "یعقوب اللہ نے کل تمہیں ایک بیٹی عطا فرمائی ہے تم نے اس کا جو نام رکھا ہے بدل دو کیوں کہ اللہ کو وہ نام پسند نہیں۔" جب میں واپس ہونے لگا تو امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا اپنے مولا کے حکم کی تعمیل کرنا اسیمیں دنیا و آخرت کی سعادت ہے۔
یعقوب سراج کا بیان ہے کہ ہم نے امام موسی کاظم علیہ السلام کے حکم کے مطابق اپنی بیٹی کا نام بدل دیا۔
(اصول کافى : ج 1، ص 310، ح 11، إ ثبات الهداة : ج 3، ص 158، ح 12.)
اسی طرح روایات میں آپ کے علم کے سلسلہ میں مختلف روایتیں موجود ہیں۔ مثلا ایک ایرانی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عربی زبان میں سوالات کئے تو آپ نے فارسی میں اسے جواب دئیے جسے سن کر اسے بہت تعجب ہوا۔ یا جب افریقی غلام اپنی مادری زبان میں محو گفتگو تھے تو آپ نے ان سے نہ صرف انکی زبان میں گفتگو فرمائی بلکہ انکے والدین نے انکے جو نام رکھے تھے وہ بھی بیان کیا۔ جس سے انہیں بہت حیرت ہوئی۔
نہ فقط انسان بلکہ آپ چرند و پرند کی زبانوں سے بھی واقف تھے۔ جیسا کہ روایت میں ایک آپ کسی کے یہاں مہمان تھے تو وہاں ایک جوڑا کبوتر آپ میں محو گفتگو تھے جسے سن کر آپ مسکرائے تو میزبان نے سوال کیا تو آپ نے فرمایا۔ نر کبوتر اپنی مادہ سے کہ رہا ہے کہ میں کائنات میں تجھے سب سے زیادہ چاہتا ہوں سوائے ان کے جو تخت پر تشریف فرما ہیں یعنی امام علیہ السلام۔
جب بھی لوگوں کو آپ کے علم پر حیرت ہوتی تو آپ فرماتے۔ "میں خلق خدا پر اللہ کی حجت ہوں لہذا خلق کی زبان جانتا ہوں۔"
(مختصر بصائرالدّرجات : ص 114، بحارالا نوار: ج 41، ص 56، ح 65.
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔